تحقیقی جائزہ نمبر 3:- ہمارا پاکستانی معاشرہ غلامی کی بہترین مثال
خزانے سے خالی ہے جس کی دنیا کو ضرورت ہے۔ پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی دنیا کی ٹاپ 100 یونیورسٹیوں میں شامل نہیں۔ کیونکہ ہم اُن کی غلامی کر رہے ہیں، جو ہمیں آگے بڑھتا دیکھنا نہیں چاہتے۔ پاکستان میں حافظِ قرآن طالبِ علموں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ مگر ان میں سے بھی زیادہ تر کسی کو بھی قرآنِ کریم کے مبارک الفاظ کا مطلب ہی نہیں پتہ جو انہوں نے حفظ کیے ہیں۔ ہم لوگ تو رب العالمین کے پیغام کو بھی سمجھ کر نہیں پڑھ رہے۔ ہمارے ہاں امتحان میں نقل بالکل اس ہی طرح عام ہے، جیسے یہ امتحاں کا اہم حصّہ ہو۔ ہمارے ہاں تو عوام ہی ایسی ہے کہ، وہ پروفیسر عبد السلامؒ جیسے قیمتی لوگوں کو ضائع کر دیتی ہے۔ صرف اس لیے کیونکہ ان کا مکتبہِ فکر اکثریت سے الگ ہے۔ عارفہ کریمؒ جیسی ذہین بچی امریکا سے آنے کے بعد بیمار ہونے کے بعد اس دنیائے فانی سے رخصت ہو جاتی ہے۔ اگر اس ہی طرح ہم نے اپنے آپ کو غلامی اور جہالت کے اندھیروں سے نہ نکالا تو ہم کبھی بھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ ہمارے ہاں دوسرے مکتبہِ فکر کے لوگوں کو اس طرح سے دیکھا جاتا ہے، جیسے وہ بے چارے پیدا ہی ذلیل و رسوا ہونے کے لیے ہوئے تھے۔ جبکہ اسلام ہمیں دوسروں کے ساتھ محبّت اور احترام کے ساتھ اختلاف کرنا سکھاتا ہے۔ اور دلیل کے ساتھ اپنی بات لوگوں تک پہنچانا سکھاتا ہے۔ ہمارے ہاں طاقتور کمزور پر ظلم کرتا ہے، کیونکہ وہ بے چارہ اسے جواب دینے کی قوّت نہیں رکھتا۔ قانون ہمارے ہاں نہیں، پولیس والے معاملہ سلجھانے نہیں بلکہ لُوٹنے کے لیے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک عورت اگر ہمارے معاشرے میں کام کرنا چاہے تو اسے ایک طوائف کی طرح سمجھا جاتا ہے، اگر وہ گھر سے باہر نکلے تو اسے غلیظ طریقے سے گھورا جاتا ہے۔ اور اگر قانون اور تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ کوئی بہت ہی افسوس ناک واقعہ ہو جائے تو بجائے اس کا سہارا بن کر مجرم کو عبرت ناک سزا دینے کے اس ہی کو الزام دے کر اس کے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے۔ اس سب کے علاؤہ عزت کے نام پر قتل ہمارے ہاں عام ہے۔
جو لوگ ہمارے ساتھ ایک قوم کی حیثیت سے آزاد ہوئے، وہ لوگ ہم سے آگے بڑھ گئے۔ اور جو ہمارے ساتھ آزاد ہوئے وہ ہمیں بہت پیچھے چھوڑ گئے۔ اور ہم آج بھی صرف پانی، بجلی، اور گیس جیسی بنیادی سہولیات کو ترستے ہیں۔ غلاموں کو اس ہی طرح ترسایا جاتا ہے، کہ وہ زندہ رہنے کو ہی ترقی سمجھیں۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بہت سی لاعلمی اور سہولتوں کی کمیاں ہیں، جن کا ہم شکار ہیں۔ تو ہم آگے کیسے ترقی کریں گے؟
ہمیں سب سے پہلے حقیقی آزادی اور صحیح معنوں میں تعلیم کی ضرورت ہے، ورنہ ہم آگے نہیں بڑھ پائیں گے اور پسماندگی کی طرف جاتے چلے جائیں گے۔
- محمد سمیع الدین
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں