اشاعتیں

تحقیقی جائزہ نمبر 3:- ہمارا پاکستانی معاشرہ غلامی کی بہترین مثال

تصویر
ہمارے پاکستانی جب بیرونِ ملک کام کرنے جاتے ہیں، تو انہیں گاڑی چلانے کی نوکری ملتی ہے، کیونکہ ہماری تعلیم اس خزانے سے خالی ہے جس کی دنیا کو ضرورت ہے۔ پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی دنیا کی ٹاپ 100 یونیورسٹیوں میں شامل نہیں۔ کیونکہ ہم اُن کی غلامی کر رہے ہیں، جو ہمیں آگے بڑھتا دیکھنا نہیں چاہتے۔ پاکستان میں حافظِ قرآن طالبِ علموں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ مگر ان میں سے بھی زیادہ تر کسی کو بھی قرآنِ کریم کے مبارک الفاظ کا مطلب ہی نہیں پتہ جو انہوں نے حفظ کیے ہیں۔ ہم لوگ تو رب العالمین کے پیغام کو بھی سمجھ کر نہیں پڑھ رہے۔ ہمارے ہاں امتحان میں نقل بالکل اس ہی طرح عام ہے، جیسے یہ امتحاں کا اہم حصّہ ہو۔ ہمارے ہاں تو عوام ہی ایسی ہے کہ، وہ پروفیسر عبد السلامؒ جیسے قیمتی لوگوں کو ضائع کر دیتی ہے۔ صرف اس لیے کیونکہ ان کا مکتبہِ فکر اکثریت سے الگ ہے۔ عارفہ کریمؒ جیسی ذہین بچی امریکا سے آنے کے بعد بیمار ہونے کے بعد اس دنیائے فانی سے رخصت ہو جاتی ہے۔ اگر اس ہی طرح ہم نے اپنے آپ کو غلامی اور جہالت کے اندھیروں سے نہ نکالا تو ہم کبھی بھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ ہمارے ہاں دوسرے مکتبہِ فکر کے لوگوں کو اس طر...

تحقیقی جائزہ نمبر 2:- ہمارے معاشرے کی حیوانیت اور مظلوم پر الزام تراشی

تصویر
 ہمارے معاشرے میں عورت کو ایک شہوانی خواہشات پورا کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، جسے صرف گھر میں بند رہنا چاہیے، ورنہ وہ مردوں کو اپنی طرف مبذول کروائے گی۔ ابھی 2021 میں ہی ہم لوگوں میں سے کچھ علم سے ناواقفیت رکھنے والے لوگوں نے اپنے برادر ملک ترکی میں اپنی اصلیت دکھا دی۔ ہمارے ملک سے کچھ افراد غیر قانونی طریقے سے ترکی گئے، اور وہاں پر پہلی بار خواتین کو کھلا ڈُلا پھرتے ہوئے دیکھ نہ پائے۔ (ظاہر سی بات ہے کہ ایسے لباس جو شرم گاہوں کے مخصوص حصوں کی طرف توجہ مبذول کریں غیر مناسب ہوتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی یہ کہہ دے کہ جو عورت ڈھکے چھپے لباس کو زیب نہ کرے وہ اس لائق ہے کہ اس کے ساتھ جنسی عصمت دری جیسا گھناؤنا کام ہو جائے۔) وہاں پر ان حیوانوں نے خواتین کی غیر قانونی ویڈیوز بنا کر ٹک ٹاک پر ڈالنا شروع کردیں۔ اور ہمارا سارا تاثر ترکی میں بھی خراب ہو گیا۔ نہ صرف ان حیوانوں کا بلکہ میرے اور آپ کے جیسے پاکستانیوں کا بھی۔ جنہیں اب تک ترک شہری اپنا بھائی کہتے تھے۔ ہمارے ملک میں کوئی قانون نہیں، غیر ملکی خواتین جو ہمارے ملک کی خوبصورتی دیکھنے آتی ہیں، اُنہیں ہمارے ملک ک...

تحقیقی جائزہ نمبر 1:- بنا کسی خوف اور ڈر کے دو نمازیں ملانا

تصویر
ہمارے علمائے کرام میں احناف تو بالکل عرافات کے سوا نمازوں کو ملانے کو حرام سمجھتے ہیں، البتہ حنبلی علماء نمازوں کو وجہ کے ساتھ ملانے کو صحیح سمجھتے ہیں۔ مگر میرا موقف ہے کہ نمازیں بنا کسی وجہ کے بھی جمع ہو سکتی ہیں۔ ہمارے روایتی علمائے کرام قرآنِ کریم کی سورۃ النسا کی آیت 103 سے حوالہ دے کر یہ فرماتے ہیں کے اس آیت کے مطابق الله نے فرمایا ہے کہ نمازیں مؤمنوں پر 5 الگ الگ اوقات پر فرض ہیں۔ لیکن اگر ہم اس آیتِ کریمہ کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ، الله تعالیٰ اس میں صلاۃ الخوف کو بتا کر یہ بات واضح کر رہے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے (یعنی چاہے خوف کی حالت بھی ہو) نمازیں مؤمنوں پر اپنے اپنے اوقات پر فرض ہیں، نہ کہ 5 الگ الگ اوقات پر فرض ہیں۔ جب الله تعالیٰ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی الله علیہ وسلم) کے ایک قریبی صحابی اور چچا ذاد بھائی حضرت عبدللہ ابن العباس (رضی الله عنہ)  بار بار سند کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ الله کے رسول نے ہمیں بنا کسی خوف اور ڈر کے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء ملا کر پڑھائی ہیں۔ پھر حضرت ابو ہریرہ (رضی الله عنہ) نے اس بات کو صحیح کہا ہوا...